کنواری مر جاؤں گی ۔۔سپاٹ نہیں جاؤں گی
پچھلے جمعہ ہم کزن اور کچھ دوستوں نے سپاٹ جانے کا پروگرام بنایا اور ہم ٹوٹل 16 افراد ہو گئے جمعہ کی رات 12 بجے نکلے ہفتے کی شام بٹ کنڈی قیام کیا اور اتوار کی صبح ہم سپاٹ کے لئے نکلے سپاٹ جانے کے لئے ناران اور بٹ کنڈی کے وسط میں ایک جگہ سوج آتی ہے وہاں سے راستہ جاتا ہے خیر ہم سوج آے وہاں اپنی گاڑیاں کھڑی کی اور 2 عدد جیپ لے کے ہم سپاٹ کے لیے نکلے اور ہم سب اتنے خوش تھے جیسے ہماری وہ کمیٹی نکلی ہو جو ہم نے ڈالی ہی نہیں تھی راستہ شروع ہوا تھوڑا سا اوپر گئے تو مٹی اندر آنے لگی ہم نے جیپ کے پردے آگے کر دیے رستہ اتنا برا کے شاید پل صرات سے گزرنا آسان هو پورا راستہ مٹی اور پتھروں پی مشتمل تھا 5 گھنٹے کی ذلالت بھرے سفر کو یہ سوچ کے برداشت کر لیا کے چلو آگے اتنی خوبصورتی ہوگی کے تھکاوٹ کا احساس ختم هو جائے گا خیر ایک جگہ پہنچ کے جیپ والے بھائیوں نے کہا اتریں جی ہمیں لگا شاید تھوڑا ریسٹ کرنا کے لئے روکا لیکن جب اس نے کہا کے سامان بھی اتار لیں ہم نے کہا بھائی ہماری آپ سے سپاٹ جانے کی بات ہوئی تھی اس نے کہا جناب یہی سپاٹ وادی ہے اور جب اس نے یہ الفاظ بولے ہمیں ایسا محسوس ہوا جو کمیٹی نکلی تھی اس کے سارے نوٹ نکلی ہیں اور نوٹ پے جو بابا جی کی تصویر اس میں ٹوپی ہی نہیں ہے جیسے وہ ٹوپی ہمیں کسی نے پہنا دی هو ہمارا سب کا یہ حال تھا جیسے شریکوں کی شادی پے سلامی دے کے اور کھانا کھانے اور رپڑھ ڈالے بغیر ہی واپس آ گئے ہوں خیر سامان نیچے اتارا تو وہاں کے لوگ ہمیں ایسے دیکھ رہے تھے جیسے ہم بندوق کے زور پے ان کو پولیو کے قطرے پلانے آ گۓ ہیں لیکن ایک بات لوگ بہت مہمان نواز تھے انہوں خاص ہمارے لئے ایک کمرہ اور بستر کا انتظام کیا وہاں بیٹھے لیتے کچھ افاقہ ہوا ان سے کچھ معلومات لی کے یہاں کچھ ایسا ہے دیکھنے کے ہمارے آنے کا مقصد پورا هو جائے لیکن سب کے جوابات مختلف تھے کسی نے کہا کے 6 گھنٹے کی پیدل مسافت جھیل ہے تو کوئی کہے کے 10 گھنٹے لگے گے مطلب ہم بلکل دل چھوڑ گۓ اس کی وجہ یہ تھی وہاں آکسیجن کی بہت کمی تھی اور ٹھنڈ بھی بہت تھی 5 8 گھنٹے چلنا تو دور چند قدم چلتے تھے تو سانس پھول جاتی تھی اور آخر کار فیصلہ یہ ہوا کے صبح واپس نکلتے ہیں اور ایک رات شوگراں گزار لیں گے لیکن مسلہ واپسی کے جیپ نہیں تھی وہاں کے مقامی لوگوں نے کہا کے صرف ایک ہی جیپ ہے جو ہر صبح شہر جاتی ہے مطلب 16 افراد ان کا سامان اور ایک جیپ اور ستارواں ڈرائیور خیر جانا تو تھا ان کو بول دیا کے آپ جیپ والے کو صبح کا بول دیں رات بہت مشکل سے گزاری اللہ اللہ کر کے صبح ہوئی ناشتہ کیا اور جیپ کے آنے کا انتظار کرنے لگے اور جب جیپ آئی اسے دیکھ کے ایسے لگا جیسے رانجھے کی ہیر کو کھیرے لینے آ گئے ہوں کیوں کے جیپ میں دروازہ نام کی کوئی چیز نہیں اوپن جیپ تھی مشکل سے سامان ایڈجسٹ کیا اور 16 لوگ جیپ پے کھڑے هو گیے ہمیں ایسا لگ رہا تھا جیسے ہمیں جانوروں کی منڈی لے جا رہے ہیں اور حیرت کی بات ہمارے علاوہ بستی کے 4 لوگ اور بھی جنہوں نے ساتھ جانا تھا اور وہ جیپ کی سائیڈ پے ایسے چپک گئے جیسے نیب والے نواز شریف کو چپکے ھوۓ ہیں سفر شروع ہوا پھر سے وہی ذلالت مٹی پتھر ہمارا بس نہیں چلا کے پیدل آ جاتے مٹی اتنی تھی کے آپ ہمارے کپڑوں اور چہروں بہت اچھی طرح اندازہ لگا سکتے ہیں 5 گھنٹے سفر کیا اور دریا کنہار پہنچ کے نہانے کا ارادہ کیا نہاتے ھوۓ ہمارے کپڑوں اور جسم سے اتنی مٹی نکلی کے کنہار بھی الٹی کرنے والا هو گیا اور مچھلیاں باہر آ کے بول رہی یا تسی نا لوو یا سانو باہر کڈ دو ۔۔
کہنے اور بتانے کا مطلب اتنا ہے بھائیو ابھی سپاٹ وادی میں کچھ بھی دیکھنے کو نہیں ہے بہت معذرت کے ساتھ جو بھی آپ کو مس گائیڈ کرے کبھی بھی اسکی باتوں میں نا آنا اور جو بھی آپ کو سپاٹ وادی کی تصویریں دیکھاہے وہ فلٹر یا ایڈٹ ہوئی ہوں گے شکریہ
سپاٹ کا سزا یافتہ ماجد اور اس کے دوست